Saturday 28 July 2012

“ناشکرا انسان” زاویہ سے اقتباس

بہت ساری چیزیں طبیعت پر بوجھ ڈالتی ہیں اور تسلسل کے ساتھ ڈالتی ہیں، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ کچھ چیزیں جو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں، اور جو ہماری طبیعتوں کے اوپر بوجھ ڈالتی ہیں، ان میں تسلسل کا رنگ آجاتا ہے، اور وہ بہت دور تک دیر تک پھیل جاتی ہیں۔ ہم اسے اللہ کی مصلحت کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے سوا چارہ بھی نہیں‌ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد بھی تسلی نہیں ہوتی انسان کی، اور وہ زیادہ جاننا چاہ۔ ہے۔ ایسا کیوں ہوا اور کیوں ہوتا رہتا ہے؟ مثلا یہ کہ چھوٹا بچہ ہے۔ اس کو کینسر ہوگیا ہے تو انسان بڑا سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اِس کا کیا
قصور تھا، کیا کوتاہی تھی۔ لیکن اُس کا قصور یا کوتاہی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ عقلِ مطلق ہے۔ جانتا ہے کہ کہاں پرکیا ہونا چاہئیے۔ اس کے بارے میں مغرب کے لوگوں نے بہت کچھ لکھا اور ولایت کا ادب اس موضوع سے مالا مال ہے۔اور نظم میں، Plays میں۔ مجھے Thonken Wilter کا ناول یاد آرہا ہے The Eight Man اس نے بھی اس میں یہ موضوع لیا ہے، بلکہ اس نے تو زندگی بھر جتنی بھی کتابیں لکھیں، لوٹ لوٹ کر پلٹ پلٹ کر اسی موضوع ہر لکھیں۔ اس کی کہانی مختصر یہ ہے کہ آٹھ آدمی دریا عبور کررہے تھے (لوہے کے رسے والا دریا) آٹھوں آدمی ایک دوسرے کے پیچھے جارہے تھےاور خدا کا کرنا کیا ہوا کہ درمیان میں وہ رسا ٹوٹ گیا اور وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پہاڑی دریا میں گرے اور فوت ہوگئے اور ان کا نام و نشان تک نہ ملا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک آدمی گھر سے نکلا حجامت بنوانے اور وہ ابھی سیلون میں داخل نہیں ہوسکا کہ ایک اندھی گولی ، امریکہ میں عام رواج ہے ، اس کو آکر لگی ۔ ایک عورت جو بس سٹاپ پر کھڑی اپنی سہیلی سے باتیں کررہی تھی اس کی سہیلی کو کسی بندے نے نشانہ بنایا ہوا تھا، سہیلی تو چلی گئی ، نشانہ وہ معصوم عورت بن گئی جس نے روک کر اس سے پوچھا تھا کہ تمہارے بیٹے کا کیا حال ہے اور تم کہاں ہو۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ایک بیوہ نے اپنا بیٹا بڑی آرزئوں اور امنگوں کے ساتھ پالا تھا۔ ایک ہی اس کا بیٹا تھا۔ پلا بڑھا اور جوان ہوا اور اس نے CSS کیا اور A.C لگا۔ ماں کے ہاں تو شبِ برات ہوگئی۔ اس نے گھنٹی سُنی اور دروازہ کھولا، اور دروازے سے اس کی لاش گھر آئی، کچھ ایسا ہوا، اکثر ایسا ہوتا ہے۔ تو تھامکن یہ کہتا ہے کہ ایک غالیچے کو آپ دیکھو، اس کے اوپر ایک پھول بنا ہوا ہوتا ہے اور بڑا خوبصورت پھول ہوتا ہے جو آپ اتنے مہنگے بھائو اس کو خرید کر لاتے ہیں، لیکن اگر آپ اس غالیچے کو اٹھا کر دیکھیں تو وہ کچھ لمبے دھاگے کچھ چھوٹے دھاگے بے ہودہ قسم کے دھاگے ایسے ہوتے ہیں ، ان پر نگاہ ڈالنے کو دل نہیں کرتا۔لیکن ہوتا ایسے ہیں ہے کہ پھول بننے کےلئے کچھ ایسے عمل کی ضرورت ہے ، جو آپ کو غالیچے کےلئے درکار ہے۔ ہاں بہت اچھی بات ہے لیکن انسان بےچارہ کیا کرے، اپنے آپ کو تسلی دینے کےلئے وہ ایسی باتیں کرتا ہے، لیکن اس کی تسلی نہیں ہوسکتی۔ میکلیش (Macleish) کا معروف ڈرامہ J.B جو حضرت ایوبّ کی زندگی کے بارے میں ہے اور جسے پڑھ کر ہم نے سبقاََ سبقاََ بہت کچھ سیکھا۔ شیکسپیئر کے Play آپ کے سامنے ہیں۔

مغرب نے اس پر بہت کچھ لکھا اور وہ کہتے ہیں ، کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا کوئی فیصلہ، کوئی “تُک” نہیں بنتا، ایسا کیوں؟ لیکن ہوتا رہتا ہے۔ وہ جو علیم مطلق ہے۔ جو مالک ہے سب کا، اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اور اس کی مرضی میں کوئی راز ہوتا ہے تو پھر ہم پوچھتے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ کچھ ہم بھی تو دانش رکھتے ہیں، عقل رکھتے ہیں۔ ہمارے بابے کہتے ہیں ، اگر کوئی چار پانچ سال کا بچہ اتفاق سے ہسپتال کے کسی آپریشن تھیٹر میں چلا جائے، اور دروازہ کھلا ہوا ہو اور سرجن کام کررہے ہوں ایک بندے کے اوپر، ان کے ہاتھ میں چھریاں، اور نشتر پکڑے ہوں اور ان کے منہ پر ربڑ چڑھائی ہوئی ہو، ماسک وغیرہ، تو وہ چیخیں مارتا ہوا باہر نکلے گا اور کہے گا کہ ظلم ہورہا ہے، اچھے بھلے آدمی کا پیٹ کاٹ رہے ہیں، چھریوں کے ساتھ۔ اے لوگو! جائو اور بچائو۔ تو کچھ ایسا ہی حال انسان کا ہے۔ وہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ میری عقل و دانش کے مطابق ہے۔ میں جیسے پچھلی مرتبہ کہا تھا کہ چیونٹی جیسے ایک سمندر کو نہیں سمجھ سکتی، انسان اللہ کے راز، افعال اور اس کے کام اور قانون کو نہیں جان سکتا۔ خوش قسمتی ہے کہ اس نے ہمیں احکام دئیے ہیں۔ بڑی خوش قسمتی ہے۔ میں نے اپنے ایک پروگرام میں عرض کیا تھا کہ میں تو اس دنیا میں آگیا، اپنی مرضی کے خلاف حکم دیا کہ تم چلو، ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ یہاں آکر ایسے گھر میں پیدا ہوگیا جو غریب سا گھر تھا، میں امیر گھرانے میں پیدا ہونا چاہتا تھا۔ میری آرزو تھی کہ فرسٹ کلاس موٹریں ہوں، لیکن جہاں حکم ہوا، وہاں آگیا، اور میں جمعرات کو پیدا ہونا چاہتا تھا، ہفتہ کو پیدا ہوگیا۔ تاریخ مجھے یہ پسند نہیں تھی ، ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک کیا۔ جب یہ برسا کوزہ (میں) بن گیا تو کوزہ گر (خدا) سے دست بدست پوچھا کہ اے کوزہ گر اس میں ڈالنا کیا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا۔ میں تو بن کے یہاں آیا ہوں۔ تو پھر اس کی مہربانی ہے، اس کا کرم ہے کہ اس نے فرمایا کہ میں انسان نبی کے ذریعے سب کچھ جان چکنے، سمجھ لینے کےلئے ایک پروگرام ، ایک فریم ورک دے دیا گیا ہے ۔ تو کچھ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کوہم بہت قریب سے جاکر دیکھتے ہیں۔ میں ان کو بڑے شوق سے دیکھتا ہوں، اور میں ان کے بابے کہتا ہوں کہ اللہ کے دئیے ہوئے احکام کو کس خوش دلی کے ساتھ اور کس محبت کے ساتھ وہ مانتے ہیں، مانتے چلے جاتے ہیں۔ کوتاہی ہوتی ہے تو پھر اُٹھ کر ماننا شروع کردیتے ہیں۔

میں حرم شریف میں جب پہلی مرتبہ گیا، بڑی دیر کی بات ہے۔ جب حرم شریف کی شکل و صورت ایسی نہیں تھی جیسی اب ہے۔ ماشاء اللہ جب بھی پیاری تھی لیکن اس کے اندر سخت پتھر تھے۔ کھڑے ہونے لےلئے کچا راستہ تھا، وہاں پر زم زم کے پاس ، کسی نے زم زم سے اپنی پگڑی دھوکے ان پتھروں پر ڈالی ہوئی تھی سوکھنے کےلئے۔ تو میں وہاں بیٹھا تھا۔ مجھے کچھ اچھا نہ لگا۔ حرم شریف میں کپڑے سوکھنے کےلئے، لیکن لوگ ڈالتے تھے، کہہ بھی کچھ نہیں سکتا تھا۔ وہ آدمی جب پگڑی سوکھی ہوئی اٹھانے کےلئے آیا ، تو میں نے پوچھا، بھائی صاحب آپ کہاں کے ہیں؟ کہنے لگا، میں پاکستان سے ہوں۔ میں نے کہا، بڑی خوشی کی بات ہے۔ پگڑی سے اندازہ لگایا تھا کہ آپ وہیں کے ہوں گے۔ ویسے آپ کون سے علاقے سے ہیں ؟ کہنے لگا سائیں میں سندھی ہوں۔ میں نے کہا، بڑی برکت والی بات ہے۔ چونکہ آپ مذہب کے بڑے قریب ہوتے ہیں، بڑے ماننے والے لوگ ہوتے ہیں اور ان میں بڑی محبت اور جذبہ ہوتا ہے، تو میں نے کہا ، سائیں آپ یہاں کب سے ہیں۔ کہنے لگا، بابا میں میں تو اٹھارہ برس سے ہوں۔ تو میں نے کہا، آپ یہاں کیا کرتے ہیں۔ لگتا ہے آپ کسی خاص پروجیکٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ کہنے لگا، ہم ایسے ہی چل کے آگئے تھے یہاں رہنے کےلئے۔ صبح سویرے اٹھ کے منڈی میں بوجھ ڈھوتے ہیں۔ اس کے دو چار پانچ ریال مل جاتے ہیں۔ اس سے ہم اپنا روٹی کھانا کرتے ہیں۔ پھر ہم آکر حرم میں بیٹھ جاتے ہیں اور اس پر نگاہ لگاکے بیٹھ جاتے ہیں اور اس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا تو پھر آپ جب یہاں آجاتے ہیں اور حرم میں بیٹھتے ہیں تو آپ حرم میں کیا کرتے ہیں، یعنی ……. کہنے لگا، سائیں ہم یہاں گر پڑتے ہیں اور پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر گر پڑتے ہیں اور پھر اٹھ کے کھڑے ہوجاتے ہیں، اٹھارہ برس سے۔ میں نے کہا ، “بہت خوش نصیب انسان ہیں جو گر بھی پڑے اور اٹھ کے کھڑا بھی ہوجائے۔ پھر گر پڑے ، پھر اٹھ کے کھڑا ہوجائے”تو یہ بڑی برکت کی بات ہے۔ ان ماننے والے لوگوں کی جو تسلیم کرلیتے ہیں اس بات کو، جو ہمیں فریم ورک عطا کیا گیا ہے۔ وہ صحیح ہے۔ مناسب ہے اور اسی کے مطابق ہم اپنی زندگی کو بسر کریں گے۔

لیکن اس کے ساتھ انسانی کمزوری ہے۔ گرنے والا جو مقام آتا ہے تو وہ بھی ساتھ چلتا ہے۔ اُس وقت آدمی یہ ضرور سوچتا ہے کہ یہ میرے ساتھ، میرے دوستوں کے ساتھ، میرے عزیزوں کےساتھ کیا ہوا؟ تو اس میں عزیزانِ گرامی ‘زیادہ کوتاہی اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان جو ہے، وہ بڑا بے صبرا اور ناشکرا ہے، اور اس کی ایک خاصیت ہے۔ چھوٹے سے دھبے کو پھیلا کر نہ صرف اپنی زندگی پر، نہ صرف اپنے علاقے پر، بلکہ ساری دنیا پر محیط کرلیتا ہےاور خود اس کے دائرے کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

اگر آپ غور کریں گے تو مصائب اور مشکلات اتنی شدید ہوتی ہیں۔ ساری زندگی نہیں ہوتیں، بندہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ساری کی ساری میری زندگی ہے اور وہ برباد ہوگئی، تباہ ہوگئی۔ مجھے یاد آیا ، آپ سے بات کرتے ہوئے ایک منگ بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔ گائوں کا رہنے والا۔ بہت ہی غریب آدمی تھا، لیکن تھا وہ صوفی آدمی۔ روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ تو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوبصورت گھوڑا تھا، اعلی درجے کا گھوڑا ۔ دنیا اسے دیکھنے کےلئے آتی۔ اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا اصطبل بنا کے رکھا ہوا تھا۔ اس کا عشق اور کچھ نہیں تھا، اس کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ ایک گھوڑا ہی تھا اس کے پاس۔ بادشاہِ وقت کو پتا چلا کہ ایک گھوڑا اس کے پاس ہے جو بہت اعلی درجے کا ہے تو یہ حاصل کرنا چاہئیے۔تو بادشاہ اپنے حواریوں کے ساتھ امیروں، وزیروں کے ساتھ اس کے پاس آیا ۔ کہنے لگا۔ ” اے فقیر مانگ کیا مانگتا ہے اس گھوڑے کے بدلے؟” اس نے کہا ، “حضور یہ بکائو مال نہیں ۔ یہ شوق سے رکھاہوا ہے۔ یہ بیچا نہیں جاسکتا۔ یہ تو بیچنے والی چیز ہی نہیں ہے۔” اس نے کہا ، پھر غور کرلے۔ ہم تجھے ایک پرگنہ ایک ریاست دیں گے۔ اس کے بدلے تو ہمیں یہ گھوڑا دے دے۔ وہ پھر بھی نہیں مانا۔ ضدی آدمی تھا۔ سودا چکتے چکتے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے کہا ، “آدھی سلطنت لےلے ، گھوڑا مجھے دے دے۔” اس نے کہا، “جنابِ عالی ! میں نے بتایا کہ اس کا کوئی مول نہیں ہے۔ اگر یہ بکنے والی چیز ہوتی تو میں آپ کو دے دیتا، لیکن یہ بکنے والی چیز نہیں ہے۔” تو اس نے کہا، اچھا تیری مرضی ہے۔ جب بادشاہ چلا گیا تو گائوں کے لوگوں نے کہا تو کتنا نالائق، بے وقوف اور کتنا جاہل ہے کہ بادشاہِ وقت تیرے پاس آیا۔ اس نے آدھی سلطنت آفر کی ۔ اگر ظالم تجھے مل جاتی تو ہم بھی مزے کرتے۔ سارے گائوں کے مزے ہوتے۔ تو ہمارا بادشاہ ہوتا۔ ظالم تو نے یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے۔ کتنی بڑی خوش نصیبی کو گھر آئے ، دھکا دے دیا، باہر پھینک دیا۔ تو اس نے کہا، وہ عجیب و غریب آدمی تھا۔ کہ میرا گھوڑا ہے۔ اس نے اس کا مول لگایا، میں نے نہیں دیا۔ اس میں خوش نصیبی یا بد نصیبی کی کیا بات ہے۔ یہ تو میری زندگی ہے۔ میرا گھوڑا ہے۔ خوش نصیبی تم کدھر سے نکال رہے ہو۔ میں نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا تو ضدی آدمی ہے۔ تو شروع ہی سے ایسا ہے اور تیرا مزاج ہی ایسا ہے۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔

تھوڑے عرصے بعد کیا ہوا۔ صبح اٹھا چارہ ڈالنے کےلئے تو وہاں دیکھا کہ اصطبل میں گھوڑا نہیں تھا۔ اصطبل خالی تھا۔ گائوں کے لوگ آئے، روتے پیٹتے کہنے لگے ہمارے گائوں کا حُسن تباہ ہوگیا۔ تجھ سے کہا تھا نا کہ بادشاہِ وقت کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتے۔ تیرا گھوڑا تیرے پاس نہیں رہا۔ تیرے ساتھ بڑا ظلم ہواتو تباہ ہوگیا، برباد ہوگیا۔ اس نے کہا، میں کہاں سے تباہ ہوگیا۔ کہاں سے برباد ہوگیا۔ ایک گھوڑا تھا، چھوٹی سی چیز تھی۔ میری زندگی تو بہت بڑی ہے۔ یہ اس کا ایک حصہ تھا۔ حصے کے اوپر میری ساری زندگی کو کیوں پھیلا کر کہہ رہے ہو کہ چونکہ تمہارا گھوڑا چلا گیا ، اس لئے تم برباد ہوگئے۔ معمولی سی بات ہے۔ انہوں نے کہا، نہیں تو بے وقوف آدمی ہے۔ تجھے اللہ نے عقل ہی نہیں دی۔

وہ پھر واپس چلے گئے ۔ کوئی ایک مہینہ گیارہ دن کے بعد اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا واپس آگیا۔ اس کے ساتھ گیارہ نئے جنگلی گھوڑے تھے۔ وہ کہیں بھاگ گیا تھا جنگل میں ، اور جنگل میں جاکر انہیں سیٹ کرتا رہا اور وہ سارے اس کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ تو گیارہ گھوڑے نئے، اعلی درجے کے ساتھ لے کر آگیا۔ جب اس نے دیکھا تو بڑا خوش ہوا۔ انہوں نے رسے ڈال کر سب کو وہاں کھڑے کردیا۔ گائوں کے لوگ آئے ۔ انہوں نے کہا، تو بڑا خوش نصیب ہے ۔ تیرا گھوڑا کھو گیا تھا اور دیکھ تجھے کتنے کمال کی چیز لا کر دی۔ اس نے کہا، میری کہاں خوش نصیبی ہے۔ گھوڑا تھا، چلا گیا تھا۔ واپس آگیا۔ تو میری ساری زندگی کچھ اور ہے، اور تم ایک واقعہ پکڑ لیتے ہو۔ تم اتنے نالائق لوگ، سمجھتے نہیں ہو۔ تم آکر کہتے ہو ، کیا خوش نصیبی ہے۔ وہ جو گھوڑے جنگل سے آئے تھے اور وہ جنگلی گھوڑے تھے۔ اب ان کو سدھانا بڑا مشکل کام تھا۔ تو اس آدمی کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ بہت پیارا، جی جان سے عزیز تھا۔ ایک باپ تھا، ایک بیٹا تھا۔ اس نے کہا، باپ یہ جنگلی گھوڑے ہیں۔ میں اِن کو سدھائوں گا۔ بریک اِن کروں گا ان ہارسز کو۔ چنانچہ اُس نے ایک کو رسہ پھینک کر پکڑا ۔ پکڑ کر اس کے منہ میں لگام دے کر اس کے اوپر چڑھا۔ چڑھ کے سب سے صحت مند جنگلی منہ زور گھوڑے کو سدھانے کی کوشش کی۔ اس کو لے کر گیا۔ بھگایا، جنگل میں چکر لگایا۔ دوسرے دن پھر جب اس پر چڑھا تو گھوڑے سے گر گیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی ، اور زمین پر تڑپنے لگا۔ اس کا باپ آیا، اس کو اٹھا کر گھر لے گیا۔ گائوں کے لوگ روتے پیٹتے آئے ، تیری بدقسمتی ہے۔ تیرا ایک ہی بیٹا تھا تُو تو مارا گیا۔ تباہ ہوگیا۔ برباد ہوگیا۔ ہم تو رونے، سیاپا کرنے آئے ہیں۔اتنا جواں سال بیٹا اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں رہا۔ اس نے کہا ، بھائی اس میں میری بدقسمتی کدھر سے آگئی۔ یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ ایک بیٹا ہے۔بیٹے کی ران ٹوٹ گئی ہے۔ مشکل آئی ہے تو ٹھیک ہے ۔ تم مجھے سارے کے سارے کیوں کہہ دیتے ہو کہ تُو مارا گیا، تُو برباد ہوگیا۔ تیرے گھر میں تو بدنصیبی آگئی ہے ۔ تائو ایک مذہب ہے۔ اس کے پیروکار بڑے واحدانیت کے قائل ہوتے ہیں۔ Oneness کے ماننے والے۔ تو یہ جو ٹوٹے آتے ہیں، ان کو نہیں مانتے۔ پوری زندگی کو مانتے ہیں اب وہ بدنصیب باپ اور بدنصیب بیٹا اور ان کے بارہ گھوڑے رہ گئے۔

تھوڑے دنوں کے بعد بادشاہ کی قریبی ہمسایہ بادشاہ سے جنگ لگ گئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ جنگ طول اختیار کرگئی تو بادشاہِ وقت کو جبری بھرتی کی ضرورت پڑی۔ اس نے ڈنکا بجا دیا گائوں گائوں میں ڈنڈی پھیر دی اور جو نوجوان بچے تھے، ان کی زبردستی جبری بھرتی کےلئے وہ گائوں مین آگئے۔ جتنے خوبصورت تگڑے مضبوط بچے تھے، ان کو کان سے پکڑ کر جنگ میں لے گئے۔ اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ، وہ کسی کام کا ہی نہیں تھا وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے ۔ گائوں کے لوگ اس کے پاس آکر کہنے لگے ، یار ہمارے تو پیارے بیٹے تھے ، سب کو ہانک کر لے گئے۔ تو بہت اچھا رہا، خوش قسمت ہے۔ اس نے کہا یار تم بندے اس قابل نہیں ہو کہ تمہارے ساتھ رہا جائے۔ یہ گائوں ہی نالائق لوگوں کا ہے جو زندگی کے ایک چھوٹے سے حصے کو ساری زندگی پر پھیلا کر اس کا نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ تو میں معافی چاہتا ہوں۔ میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا اور میری اور تمہاری جدائی۔

چنانچہ وہ اپنے گھوڑے اور بیٹا لے کر کسی اور گائوں چلا گیا۔ اس کا یہ فلسفہ چینی فلسفہ ہے۔ دائرے کا ایک بہت بڑا حصہ بنا کر زندگی کو سمجھنے اور جانچنے کے لئے اور اس کو آنکنے کےلئے، ایک فٹا لے کر اس کا دائرہ کار طے کرنے کےلئے۔ کبھی مت کہیے ۔ آپ کی زندگی میں اگر کوئی برا واقع ہوا ہے۔ کوئی ایک دھبا آیا ہے کہ وہ ساری کی ساری آپ کی زندگی پر محیط ہوگیا ہےلیکن انسان کا یہ خاصہ ہے کہ جب زرا سی تکلیف پڑتی ہے تو وہ چیختا چلاتا ہے۔ جب ذرا سی خوشی کا لمحہ آتا ہے وہ اس کو بھی پھیلاتا ہے کہ میں سارے کا سارا خوش ہوگیا۔ حالانکہ اس میں خامیاں ، کمزوریاں ، کوتاہیاں بدستور موجود ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ خوشی کا آگیا ہو۔

مجھے آپ سے بات کرکے اچانک یاد آیا ۔ میرا پوتا چھوٹا، وہ آرہا تھا، گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے اسے گود میں اٹھا کے بازو پہ بٹھایا ۔ میں نے کہا، دیکھو یار کیا اچھا موسم ہے ذرا دیکھ باہر نکل ۔ اُس دن موسم بہت اچھا تھا۔ ہمارے بڑے بڑے شیشے تھے۔ آگے درخت لہلہا رہے تھے ۔ پودے لگے ہوئے تھے بانس کے، جو زیادہ خوبصورت لگتے تھے۔ کالے سیاہ بادل تھے۔ ان کے اندر سے بادلوں کی قطاریں جارہی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ میرے پوتے کو حسن و جمال میں دل چسپی ہو۔ وہ دیکھے اور اس کو پسند کرے بجائے اس کے کہ، وہ لکڑی اور پلاسٹک کے واہیات کھلونوں سے کھیلے، جن میں زیادہ قاتل اور حملہ کرنے والے ہیں۔ پتا نہیں، آج کل ان کو کیا کہتے ہیں، عجیب و غریب۔ اُن سے کھیلتا رہتا تھا۔ جب میں نے اسے گود میں اٹھا کر کہا، دیکھو باہر کا منظر اور اس کا حسن ، یہ بادل اور پرندے اور یہ درخت اور یہ لہلہاتی شاخیں ، تو وہ بالکل نہیں دیکھ رہا تھااور گھٹن سی اس کے اندر ہے، اور ایک ہی جگہ اس کی نگاہیں مرکوز ہیں، اور گھبرایا ہوا ہے، اور میری گود میں چڑھا ہوا ہے۔ میں نے جب اس کی نگاہوں کو غور سے دیکھا تو وہ شیشے کے پار ہی نہیں جارہی تھیں۔ میں نے کہا، یہ کیا مسلہ ہے ۔ اتنا معصوم بچہ اور یہاں پر پھنسا ہوا ہے۔ تو خواتین و حضرات! میں نے یہ دیکھا کہ وہ جو بڑا سا شیشہ ، جس میں سے میں اُسے جمال اور خوبصورتی سے متعارف کروارہا تھا، اس شیشے کے ساتھ ایک مری ہوئی مکھی چپکی ہوئی تھی۔ مرگئی ہوگی کب کی۔ جیسے ہم کہتے ہیں چھی چھی لگی ہوئی تھی، اس نے سب کچھ چھوڑ کر ساری کائنات چھوڑ کر سارا حسن و جمال چھوڑ کر اپنی نگاہیں اس چھی چھی پر مرکوز کی تھیں، اور منہ بسور کے بیٹھا ہوا تھا کہ یہ دنیا جو ہے ساری کی ساری چھی چھی ہے، اور مری ہوئی مکھی ہے اور نالائق چیز ہے اور ان ساری چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتاجن سے میرا دادا کرنا چاہتا ہے۔

تو جب مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں ، تو اگر آپ ان کو غور سے دیکھیں کہ ان کا ایک حصہ بالکل چھوٹا سا فریکشن، آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہم نے وہ دھبا پھیلا کر اتنا وسیع تر کرلیا ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنے ہمارے اختیار میں نہیں رہتا، اور وہ پھر پھیلا ہوا دھبا ہمارا حکمران بن جاتا ہے، اور جہاں جہاں چاہتا ہے، ہم کو اٹھائے پھرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پچھلی مرتبہ کہا، اگر اللہ کی ذات اور اس کے افعال کو جاننے کی آرزو ہے تو پھر اس کے احکام کے اندر داخل ہونا پڑے گا، اور اس فریکوئنسی کو حاصل کرنا پڑے گاجس فریکوئنسی کو پکڑکر ، اچھی طرح سے اختیار کرکے ہم ان افعال کو سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے ، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔